شاہ اَست حُسین بادشاہ اَست حُسین

(ایک انتہائی ضروری بات جو سب کو معلوم ہونا بہت ضروری ہے)
آج کل یہ اشعار اکثر محافل میں پڑھے جاتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اشعار خواجہ غریب نواز نے لکھے ہیں حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ اشعار خواجہ غریب نواز کے کلام کے ہے ہی نہیں اور پھر اس کے چوتھے شعر کا معنٰی ہی کُفریہ ہے جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اللّٰہ کی توحید کا بانی حُسین ہے (اَستَغفِرُ اللّٰہ)
عظیم مُحدّث شاہ عبدالعزیز مُحدّثِ دہلوی (رَحمَتُہ اللّٰہِ عَلَیہ) اپنی تصنیف '' تُحفہ اثناء عشریہ '' صفحہ نمبر 106 پر یہ لکھ چُکے ہیں کہ " شاہ اَست حُسین بادشاہ اَست حُسین '' یہ خواجہ غریب نواز کا کلام نہیں ہے اور وہ ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ غریب نواز ہو کر اتنی کُفریہ بات نہیں کرسکتے۔ یہ اشعار دراصل ایک ایرانی شاعر معین الدین حسن سنجری  کے ہیں جو شیعہ تھا، اب اہلِ سنت نادانستہ طور پر اور شیعہ دانستہ طور پر خواجہ اجمیری (رَحمَتُہ اللّٰہِ عَلَیہ) کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
اور ہند غریب نواز کے جو ملفوظات ہیں وہ ہشت بہشت میں خواجہ بختیار کاکی (رَحمَتُہ اللّٰہِ عَلَیہ) نے قلمبند کر دئیے ہیں اُن میں یہ شعر نہیں ہے خواجہ غریب نواز (رَحمَتُہ اللّٰہِ عَلَیہ) نے خود کوئی کتاب لکھی ہی نہیں ہے۔
اور پھر اس شعر کا معنٰی ہی غلط ہے ''حقّا کہ بِنائے لَااِلٰہٰ اَست حُسین '' اس کا معنٰی یہ ہے کہ خدا کی بنیاد حُسین ہے، لَااِلٰہٰ کی بنیاد حُسین ہے (ثُمَّ مَعَاذَ اللّٰہ) اس کا مفہوم پھر یہی بنا کہ حُسین اللّٰہ کی بنیاد ہے حُسین پہلے ہے اور اللّٰہ بعد میں ہے (اَستَغفِرُ اللّٰہ) تو یہ اسلام ہے یا کُفر؟ یقیناََ یہ کُفر ہے۔
ہم سب کو چاہیے کہ یہ اشعار نہ پڑھیں اور باقی لوگوں کو بھی اس کی حقیقت بتائیں خصوصاََ ہمارے نعت خواں حضرات اور نقیب حضرات کو بھی یہ اشعار نہیں پڑھنے چاہیے۔
اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں تاکہ سب کی اصلاح ہو سکے۔
جزاک اللّٰہ

علماۓ کرام کی بارگاہ میں گزارش ہے
اس پوسٹ کا معقول جواب عطا کریں

                     *الجواب*
             *اللھم ھوالملھم بالحق والصواب*
                 *بسم اللّٰه الرحمن الرحیم*

شعر مذکور
سرداد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لاالہ است حسین
گوکہ حضور خواجۂ خواجگان عطائے رسول حضور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سنجری علیه الرحمۃ والرضوان کا شعر عند التحقیق نہ بھی ہو مگر اس شعر کا مصرعۂ ثانی کا مفہوم و معنی و مطلب درست ہے
اس مصرع کا‌ مطلب یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کے حق کی بنیاد حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں کلمہ طیبہ کا ایک حق یہ بھی ہے کہ فاسق و فاجر کے ہاتھ پر بیعت نہ کی جائے اور اسے سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا جانشین نہ تسلیم کیا جائے یقینا اس حق کو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کامل طور سے پورا کیا اور یزید پلید کی مٹی پلید کر کے حق کلمہ طیبہ کی لاج رکھ لی اور اس معنی کے لحاظ سے آپ کو  دیں پناہ کہا گیا حدیث شریف میں ہے من قال لاالہ الا اللہ دخل الجنۃ اس کی تصریح میں علماء فرماتے ہیں کہ جس نے  یہ کلمہ پڑھا اور ساتھ ہی اس کا حق بھی ادا کیا مثلاً ارکان اسلام کی بجا آوری کی نواہی سے بچا وہ اس بشارت کا حقدار ہے یونہی مذکورہ مصرعہ میں کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ طیبہ کا حق ہے پھر یہ بات دور یزید کو سامنے رکھ کر ہی کہی گئی ہے جیسا کہ اس طرح کے کلام عموماً ایک مخصوص دور کے لئے ہی کہے جاتے ہیں ایسا ہی فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد ثانی صفحہ 624 پر تصریح موجود ہے اور سیدی و مرشدی و مرشد اجازت حضور تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا قادری ازہری قاضی القضاۃ فی الہند علیہ الرحمہ سے اس مصرع کی صحت کے تعلق سے استفتاء و استفسار کیا گیا تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا مصرعۂ مذکورہ صحیح و درست ہے جیسا کہ حضرت کا جواب آڈیو پہ سن سکتے ہیں

*ھذا ما عندی والعلم بالحق عند ربی عزوجل و علمه اتم واحکم واللّٰه تعالیٰ اعلم*

*کتبہ محمد عالمگیر رضوی مصباحی امجدی عفی عنہ خادم تدریس و افتاء اسحاقیہ جودھپور راجستھان*
*١٢رجب المرجب ١٤٤٠*

    *راقم السطور*
*احقر العباد محمد روشن علی سکندری القادری اشفاقی غفرله جودھپور راجستھان*

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

غیرمسلم کے ساتھ اس کے گھر کھانہ کھانا کیسا ہے

أم معبد رضي الله عنها كى بکری سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دلچسپ معجزہ