ہدیہ کسے کہتے ہیں اسکی تعریف کیا

ہدیہ کسے کہتے ہیں اسکی تعریف کیا

السلام عليكم و رحمتہ و برکاتہ
ہدیہ کسے کہتے ہیں اسکی تعریف کیا جواب عنایت فرمائیں

*🌹سائل محمد سلمان خان حشمتی🌹*
ا__________💠⚜💠____________

*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*
*📝الجواب بعون الوہاب :-*
سب سے پہلے یہ بات جان لیں کہ ایک عطیہ ، یعنی ہدیہ وغیرہ ایک ہے نذرانہ ایک ہے ہبہ
کسی بڑے کا اپنے چھوٹے کو بغیر عوض کچھ دینا عطیہ کہلاتا ہے
اور چھوٹے کا بڑے کو کچھ دینا نذرانہ ہے
اور برابر والے کا برابر والے کو کچھ دینا ہبہ ہے
*📙مراۃ المناجیح جلد ۴ صفحہ ۳۷۸*
🎗ہدیہ ہبہ اور تحفہ کو کہتے ہیں , کوئی بھی شخص اپنے ذاتی مال میں سے کس بھی شخص کو ہدیہ یا تحفہ یا ہبہ دے سکتا ہے ۔اور دینے کے بعد واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا ــــ
⚜اگر کوئی شخص کسی بھی شخص کو ہدیہ یا تحفہ دے اور پھر واپسی کا مطالبہ کرے تو شریعت اسلامیہ کی رو سے اسکی مثال اس کتے کی طرح ہے جو قے کرنے کے بعد اسے چاٹتا ہے ۔
📄رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
*فَإِنَّ الْعَائِدَ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ*
📄صحیح بخاری شریف
یقینا اپنے ہبہ (ہدیہ یا تحفہ ) کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے (الٹی ) کو چاٹتا ہے
*📕مراۃ المناجیح جلد ۴ صفحہ ۳۸۲*
⚡اس حدیث کی بناء پر امام شافعی و مالک واحمد فرماتے ہیں کہ ہبہ دی ہوئی چیز واپس لینا مطلقاً حرام ہے
کیونکہ حضور نے قے کھانے سے تشبیہ دی اور کے حرام چیز ہے
اور امام اعظم ابو حنیفہ کے واپس لے سکتا ہے دلیل یہ ہے کہ
*الواہب احق بھبتہ مالم یصب منہ*
🎀یعنی ہبہ کرنے والا ہبہ کا حقدار ہے جب تک کہ اسکا عوض نہ لے اور یہ تشبیہ صرف نفرت دلانے کے لئے ہے
البتہ والد اگر اپنی اولاد کو ہبہ یا تحفہ یا ہدیہ دے تو اسکے احکامات قدرے مختلف ہیں
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
*لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً فَيَرْجِعَ فِيهَا إِلَّا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ :*
🔖کسی بھی شخص کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ کسی کو عطیہ (ہبہ , تحفہ , ہدیہ) دینے کے بعد واپس لے لے مگر والد جو اپنی اولاد کو دیتا ہے (وہ واپس لے سکتا ہے
*(📘رواہ الترمذی وابو داؤد والنسأئ وابن ماجہ واصححہ الترمذی*
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
میرے والد نے مجھے کچھ ہبہ کیا اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے انہیں گواہ بنانے کے لیے تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
*يَا بَشِيرُ أَلَكَ وَلَدٌ سِوَى هَذَا قَالَ نَعَمْ فَقَالَ أَكُلَّهُمْ وَهَبْتَ لَهُ مِثْلَ هَذَا قَالَ لَا قَالَ فَلَا تُشْهِدْنِي إِذًا فَإِنِّي لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ*
متفق علیہ
اے بشیر کیا اسکے علاوہ بھی تیری اولاد ہے ؟ تو میرے والد نے کہا جی ہاں تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے ان تمام کو اسی طرح کا تحفہ دیا ہے ؟ تو کہنے لگے کہ نہیں ! تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر مجھے گواہ نہ بنا , کیونکہ میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا ۔
تو ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ
والد اگر اولا کو ہبہ یا ہدیہ دے تو وہ واپس لے سکتا ہے اور اسی طرح والد پر لازم ہے کہ تو تمام اولاد کو برابر ہدیہ یا تحفہ دے کسی کو زیادہ کسی کو کم دینا یا کسی کو دینا کسی کو نہ دینا یہ ظلم ہے ۔
والد کے علاوہ کوئی اور جسے چاہے جتنا چاہے ہبہ کرسکتا ہے اور وہ واپس بھی نہیں لے سکتا
*📗مراۃ المناجیح جلد ۴ :*
*🌹واللہ اعلم بالصواب🌹*
ا__________💠⚜💠____________
*✍🏻از قلم حضرت علامہ ومولانا مفتی محمـد مظہر علی رضوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی خادم التدریس مدرسہ غوثیہ حبیبیہ بریل دربھنگہ بہار*
*🗓 ۵ مارچ بروز منگل ۲۰۱۹ عیسوی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

غیرمسلم کے ساتھ اس کے گھر کھانہ کھانا کیسا ہے

أم معبد رضي الله عنها كى بکری سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دلچسپ معجزہ