دعوت ولیمہ کی شرعی حیثیت

دعوت ولیمہ کی شرعی حیثیت

✍🏻شہزادئ مفتی عبد المالک مصباحی، چیف ایڈیٹر رضائے مدینہ جمشیدپور

      ” اعظم النکاح برکة ایسرہ مؤنة“ کی روشنی میں نکاح سے حاصل ہونے والی برکتوں کے مفقود ہونے میں جہاں جہیز کی کثرت، منگتوں کا جہیز مانگنا اور کثرت بارات جیسی وبائی طوفان کا کردار ہے، وہیں نکاح جیسی پاکیزہ اور سادہ سنت انبیا میں مسنون ولیمہ میں بھی بکثرت خامیاں اور خلاف شرع امور کو ریا و سمعہ کے لیے اپنے اوپر لازم و ضروری کر لینا ہے ،  حالانکہ اسلامی دائرہ میں رہتے ہوئے مسنون دعوت ولیمہ کی احادیث و آثار اسلاف میں بڑی فضیلتیں وارد ہوئیں ہیں ولیمہ کرنے کے لیے تاکیداً حکم وارد ہے، جیسا کہ
   *عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا سے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا _اولم ولو بشاۃٍ_  ولیمہ کر اگرچہ ایک ہی دنبہ یا اگرچہ ایک بکری سے (دونوں معنی محتمل ہیں)*
((📚 صحیح بخاری،باب الصفرۃ للمتزوج، ۲/۷۵ ۔۷۷۴))

اس حدیث کی بنا پر اکثر علما کے نزدیک ولیمہ سنت ہے بعض علما کے نزدیک مستحب اور بعض اس کے وجوب کے قائل ہیں لیکن ہم حنفی سنیوں کے نزدیک ولیمہ سنت، سنت مستحبہ ہے، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اکثر علماے کرام کے تعلیمات کی روشنی میں تحریر فرمایا ہے :
     *ولیمہ بعدنکاح سنت ہے اس صورت میں صیغہ امر بھی وارد  ہے،   اور اول اظہر تارکان سنت ہیں۔ مگر یہ سنن مستحبہ سے ہے۔ تارک گناہ گار نہ ہوگا اگر اسے حق جانے ۔*
((📚 فتاویٰ رضویہ ،کتاب النکاح ،جلد ١١،صفحہ نمبر ٢٧٧))
    
   *🌹دعوت ولیمہ قبول کرنے کی تاکید حدیث کی روشنی میں:🌹*
       ولیمہ کی فضیلت کے ثبوت کے لیے کیا یہی کافی نہیں کہ  یہ حضور کی سنت اور حضور کے حکم پر عمل پیرا ہونے کی دلیل ہے - یقیناً ایک مؤمن کے لیے یہی بڑی سعادت کی بات ہے -
*لیکن.......* احادیث میں دعوت ولیمہ کے فضائل دو بالا کرتے ہوئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مقامات پر دعوت ولیمہ کو قبول کرنے اس میں شریک ہونے کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :
    *إذا دعی احدکم إلی الولیمة فلیأتها (ترجمہ) جب تم میں سے کسی کو ولیمہ کی دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ ولیمہ میں شرکت کرے -*
((مشکوٰۃ المصابیح ،باب الولیمة، الحدیث ٣٠٧٨))

*📿(بلا عذر شرعی) دعوت نہ قبول کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :*

      *” ومن لم یجب الدعوۃ فقد عصی ابا القاسم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم  ۔“ (ترجمہ) جس نے کسی کی دعوت قبول نہ کی اس نے اباالقاسم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔*

((📚 نصب الرایۃ لاحادیث الہدایه ،کتاب الکراھیة ۴ /۲۲۱))

    *لیکن..... اب یہ بھی واضح ہو جائے کہ کس قسم کی دعوت ولیمہ میں شرکت کی تاکید احادیث میں آئی ہے‼*
     اسی کو واضح کرتے ہوئے مندرجہ بالا حدیث کے تحت عارف باللہ شیخ محقق حضرت مولانا شاہ عبد الحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے :
    *دعوت کا قبول کرنا خواہ کسی موقع پر ہو سنت اور مستحب ہے، ولیمہ میں زیادہ تاکید ہے - بعض علما نے فرمایا دعوت ولیمہ کا قبول کرنا واجب ہے، بعض نے فرض کفایہ کہا، لیکن........ چند چیزوں کی بنا پر وجوب ساقط ہو جاتا ہے (١)کھانا مشتبہ (٢) صرف مالداروں کو بلایا گیا ہو (٣)فاسقوں کی مجلس ہو (٤)کسی کو بطور رشوت بلایا گیا ہو اور ناجائز کام میں تعاون طلب کیا جا رہا ہو (٥) یا وہاں خلاف شرع امور موجود ہوں مثلاً دسترخوان پر شراب موجود ہو، بینڈ باجا بجایا جا رہا ہو، یا عورتوں کی بے پردگی ہو -*
((📚شرح مشکات أشعة اللمعات، جلد ٤،ص: ٣٤٤))

*💎مندرجہ بالا تفصیلات سے مسنون دعوت ولیمہ کی فضیلت بخوبی واضح ہو گئی، اب یہ بھی واضح ہو جائے کہ ولیمہ میں کیا کیا خامیاں در آئی ہیں؟؟ ‼* کیوں کہ دور حاضر میں دعوت ولیمہ لوگ سنت نہیں بلکہ (معاذ اللہ) رسم سمجھ کر کرتے ہیں اور انہیں اتنا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ولیمہ کب؟ کیسے؟ اور کیوں؟ کیا جاتا ہے اسی لیے اولا تو یہ واضح ہو جائے کہ......
     *ولیمہ کب کریں‼* علماے کرام نے احادیث کی روشنی میں ولیمہ کے صحیح وقت کی نشاندہی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
    *ولیمة العرس سنة وفیہا مثوبة عظیمة وهی إذا بنی الرجل بامرأته ینبغي أن یدعو الجیران والأقربا والأصدقاء الخ (یعنی)شادی کا ولیمہ سنت ہے اور اس میں بڑا ثواب ہے اور یہ (دعوت اس وقت ہے) جب مرد اپنی بیوی سے ملے تو مناسب ہے کہ وہ دعوت دے اپنے پڑوسیوں، عزیز و اقارب کو الخ*
((📚 فتاوٰی عالمگیری، ج: ٥،ص:۳۴۲) )
    یعنی ولیمہ صرف نکاح کے بعد نہیں کر سکتے بلکہ ولیمہ کے لیے ضروری ہے زوج و زوجہ کی ملاقات ہو اور اسی خوشی میں پڑوسیوں، عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کو کھانا کھلایا جائے، اسی کی صراحت اعلٰی حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں فرمائی ہے :
    *شب زفاف کی صبح کو احباب کی دعوت ولیمہ ہے، رخصت سے پہلے جو دعوت کی جائے ولیمہ نہیں، یونہی بعد رخصت قبل زفاف اور ریا وناموری کے قصد سے جو کچھ  ہو حرام ہے۔ اور جہاں اسے قرض سمجھتے ہیں وہاں قرض اتارنے کی نیت میں حرج نہیں اگرچہ ابتداءً یہ نیت محمود نہیں (لیکن اس دعوت سے ولیمہ کی سنت ادا نہ ہوئی)*
((📚فتاویٰ رضویہ ،کتاب النکاح ،جلد ١١ ،صفحہ نمبر ٢٥٤))
       *یوں ہی......* ہمارے معاشرے میں نکاح کے اخراجات کو بڑھانے اور نکاح کو بوجھ سمجھنے میں دعوت ولیمہ کی حد کا علم نا ہونا اور اس پر عمل پیرا نہ ہونا بھی ہے کہ رشتے دار اور خاندان والے ہفتوں پہلے اور شادی کے ہفتوں بعد شادی خانہ میں دعوت کھاتے رہتے ہیں حالانکہ اسلام میں شادی کے موقع پر صرف ولیمہ کی دعوت کو سنت قرار دیا اور بھی صرف ایک دن (زیادہ سے زیادہ دو دن کی گنجائش ہے -

*⁉دعوت ولیمہ کب تک‼*
     شب زفاف کی صبح سنت کی نیت سے خوشی میں دعوت کرنا اور اپنے خویش وأقارب اور ہمسائے کو کھانا کھلانا مسنون ولیمہ ہے دوسرے دن کی بھی گنجائش ہے لیکن اس سے زیادہ کی قطعی نہیں جیسا کہ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا :
    *طعام اول یوم حق ، و طعام یوم الثانی حق، و طعام یوم الثالث سمعة، و من سمع سمع الله*
ترجمہ : پہلے دن کا کھانا حق ہے، دوسرے دن کا کھانا سنت ہے اور تیسرے دن کا کھانا دکھاوا ہے، اور جو شخص لوگوں کو سنائے اللہ تعالٰی قیامت کے دن اسے مشہور کرے گا -

*⁉ولیمہ اپنی استطاعت کے اعتبار کریں ‼* بلا شبہ ولیمہ سنت ہے لیکن ہر شخص اپنی استطاعت و حیثیت کے مطابق کرے - قرض (معاذ اللہ)، رشوت لے کر قطعی ولیمہ نہ کرے کیونکہ اپنی طاقت و حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنا خلاف شرع ہے - اپنی استطاعت کے مطابق جو بھی میسر ہو اقارب و احباب کو خوشی سے بنیت ولیمہ کھلا دیا جائے سنت ولیمہ کے ذمہ سے بری ہو جائے گا اس پر قطعی یہ لازم نہیں ہے کہ ہزار دو ہزار لوگوں کو قرض لے کر باقاعدہ دعوت ولیمہ دے، جس کی کئی مثالیں احادیث میں ملتیں ہیں مثلاً :
      یوں تو معلم انسانیت حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی بعض أزواج پر بڑی فراخی سے دعوت ولیمہ منعقد کیا لیکن تعلیم أمت اور غم خوارئ غربت کے لیے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پر جو ولیمہ کیا اس کا تذکرہ کتب احادیث میں یوں موجود ہے -
   *نبی کریم ﷺ نے خیبر اور مدینہ کے درمیان قیام فرمایا اس دوران حضرت صفیہ کو حاضری بارگاہ کی سعادت نصیب ہوئی تو میں نے مسلمانوں کو اس کے ولیمہ کی دعوت دی اس میں نہ روٹی تھی نا گوشت، اس میں صرف یہ تھا کہ آپ نے چمڑے کے دسترخوان بچھانے کا حکم دیا اور ان پر کھجوریں، پنیر اور گھی رکھ دیا گیا -*
((رواہ البخاری فی کتاب الولیمة))

*🚫دعوت ولیمہ میں ریا و سمعہ کی مذمت‼* احادیث کریمہ میں اس دعوت ولیمہ میں شرکت کرنے اور کھانا کھانے کی ممانعت آئی ہے جس میں فخر اور نمود و نمائش کے لیے کھانا پکائیں اور دعوت کریں، سلف صالحین ایسے لوگوں کی دعوت قبول نہیں کرتے تھے اور نا ہی کھانا کھاتے تھے، کیونکہ حدیث شریف میں ہے :
   *أن النبی صلی الله عليه وسلم نهی عن طعام المتباریین أن یوکل - (ترجمہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کھلوانے والے دو شخصوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایا -*
(📚ابو داؤد شریف)

*🚫دعوت ولیمہ میں محض امرا کی شرکت باعث مذمت🚫*  ولیمہ کی تقریب میں پائ جانے والی خامیوں میں سے ایک بڑی خامی یہ ہے کہ ولیمہ کی دعوت میں محض صاحب ثروت کو مدعو کیا جائے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے :
    *قال رسول الله صلی الله عليه وسلم شر الطعام طعام الولیمة یدعی لها الأغنياء -(ترجمہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بدترین کھانا ولیمے کا وہ کھانا ہے جس کے لیے مالداروں کو بلایا جائے اور فقیروں کو چھوڑ دیا جائے -*
((📚 مشکات المصابیح ،باب الولیمة، الحدیث ٣٨٠))
    *ایسی ہی اور بھی لاتعداد خامیاں ولیمہ کی تقریب میں در آئی ہیں جن تمام کو اس مختصر سی تحریر میں سمونا مشکل و دشوار ہے اسی لیے انہیں پر اپنی تحریر کو اس دعا سے مکمل کر رہی ہوں کہ اللہ تعالٰی ہمیں ہر عمل سنت کی روشنی میں کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
(آمین یا رب العالمین و ثم آمین بجاہ نبی الامین ﷺ)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

غیرمسلم کے ساتھ اس کے گھر کھانہ کھانا کیسا ہے

أم معبد رضي الله عنها كى بکری سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دلچسپ معجزہ