ذبح کرنے کے احکام

امام اجل فقیہ النفس قاضی خاں اپنے فتاوی میں تحریر فرماتے ہیں:

رجل ضحی وذبح وقال بسم اﷲ بنام خدائے بنام محمد علیہ السلام، قال الشیخ الامام ابوبکر محمد بن الفضل رحمہ اﷲ تعالی ان اراد الرجل بذکر اسم النبی صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم بتبجیلہ وتعظیمہ جازولاباس وان ارادبہ الشرکۃ مع اﷲ لاتحل الذبیحۃ ۳؎۔

کسی نے بنام خدا محمد علیہ السلام قربانی کی یا ذبح کیا، شیخ امام ابوبکر محمد بن فضل رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: اگر اس شخص نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے نام سے صرف تعظیم وتبجیل مراد لی تو جائز ہے اور اگر اللہ تعالی کے ساتھ شریک بنایا تو ذبیحہ حلال نہ ہوگا ۔ (ت)

(۳؎ فتاوی قاضی خاں کتاب الاضحیۃفصل فی الانتفاع بالاضحیۃ نولکشور لکھنؤ ۴/ ۷۵۰)

بلکہ اس سے بھی زائد خاص صورت عطف میں مثلا ''بنام خدا وبنام فلاں'' جس سے صاف معنی شرکت ظاہر ہے اگر چہ مذہب صحیح حرمت جانور ہے، مگر حکم کفرنہیں دیتے کہ وہ امر باطنی ہے،کیا معلوم کہ اس کی نیت کیا ہے۔

درمختارمیں ہے:ان عطف حرمت نحوباسم اﷲ واسم فلان ۱؎۔

اگر اللہ تعالی کے نام پر دوسرے نام کا عطف کیا تو حرام ہے، مثلا بسم اللہ واسم فلاں۔ (ت)

(۱؎ درمختار کتاب الذبح مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۲۸)

ردالمحتارمیں ہے :ہوا لصحیح وقال ابن سلمۃ لاتصیر میتۃ لانہا لوصارت میتۃ یصیر الرجل کافرا، خانیۃ، قلت تمنع الملازمۃ بان الکفر امر باطن والحکم بہ صعب فیفرق کذا فی شرح المقدسی، شرنبلالیۃ ۲؎۔

وہی صحیح ہے اور ابن سلمہ نے فرمایا مردار نہ ہوگا کیونکہ اگر مردار کہیں گے تو ذبح کرنے والے کو کافر قرار دینا ہوگا، خانیہ، میں کہتاہوں یہ ملازمہ ممنوع ہے کیونکہ کفر باطنی امر ہے اور اس کا حکم دشوار ہے تو فرق کرنا ضروری ہے، شرح مقدسی میں اسی طرح ہے، شرنبلالیہ، (ت)

(۲؎ ردالمحتار کتاب الذبح داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۹۱)

اللہ اکبر! خود ذابح کا خاص تکبیر ذبح میں نام خدا کے ساتھ نام غیر ملاکر پکارے اورکافر نہ ہو، جب تک معنی شرک کا ارادہ نہ کرے بلکہ بے عطف ''بنام خدا بنام محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم'' کہے اور اسی نام پاک کے لینے سے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی تعظیم ہی چاہے، حضور کی عظمت ہی کے لئے خاص وقت ذبح بنام خدا کے ساتھ بنام محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کہے تو جانورمیں اصلا حرمت وکراہت بھی نہیں، مگر پیش از ذبح اگر کسی نے یوں پکاردیا کہ ''فلاں کا بکرا، فلاں کی گائے'' تو پکارنے والا مشرک اور اس کے ساتھ یہ لفظ منہ سے نکلتے ہی جانور کی بھی کایا پلٹ ہوکر فورا بکری سے کتا، گائے سے سور، اگر چہ وہ منادی غیر ذابح ہو، اگر چہ ابھی نہ وقت ذبح نہ دم تکبیر، معاذاللہ، وہ لفظ کیا تھے جادو کے انچھر تھے چھوتے ہی جانور کی ماہیت بدل گئی، ایسے زبردستی کے احکام شرع مطہر سے بالکل بیگانہ ہیں۔

بڑی دلیل ان کے قصد عبادات غیر ومعنی شرک پر یہ پیش کی جاتی ہے کہ'' اس ذبح کے بدلے گوشت خرید کر تصدق کرنا ان کے نزدیک کافی نہیں ہوتا، تو معلوم ہوا کہ ایصال ثواب مقصود نہیں، بلکہ خاص ذبح للغیر وشرک صریح مراد ہے، اگر چہ وہ صاف کہہ رہے ہیں کہ ہمارا مطلب صرف ایصال ثواب ہی ہے''۔اقول اس سے صرف اتنا ثابت ہوا کہ خاص ذبح مراد ہے، ذبح للغیر کہاں سے نکلا، کیا ثواب ذبح کوئی چیز نہیں، یا گوشت دینے میں وہ بھی حاصل ہوجاتاہے،

عنایہ میں ہے :

التضحیۃ فیہا افضل من التصدق بثمن الاضحیۃ لان فیہا جمعا بین التقرب باراقۃ الدم والتصدق والجمع بین القربتین افضل ۱؎ اھ ملخصا۔

اس صورت میں قربانی کرنا اس کی قیمت کے صدقہ سے افضل ہے کیونکہ قربانی میں دونوں قربتیں حاصل ہوتی ہیں، خون بہاؤ اور صدقہ بھی، جبکہ دو قربتوں کو جمع کرنا افضل ہے اھ ملخصا۔ (ت)

(۱؎ العنایۃ علی ہامش القدیر کتاب الاضحیۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۸/ ۴۳۲)

معہذا عوام ایسی اشیاء میں مطلقا تبدیل پر راضی نہیں ہوتے، مثلا جوآٹے کی چٹکی روزانہ اپنے گھر کے خرچ سے نکالتے ہیں اور ہر ماہ اسے پکاکر حضور پرنور سید ناغوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی نیاز دلا کر محتاج کو کھلاتے ہیں، اگر ان سے کہے کہ یہ آٹا جو جمع ہوا ہے اپنے خرچ میں لائیے اور اسی کے عوض اور پکائیے کبھی نہ مانیں گے حالانکہ آٹے میں کوئی ذبح کا محل نہیں، اور ذبح میں بھی اگر اس جانور کے بدلے دوسرا جانور دیجئے ہر گز نہ لیں گے، حالانکہ ادائے ذبح میں دونوں ایک سے، تو ا س کا کافی نہ سمجھنا اسی خیال تعیین وتخصیص کی بنا پر ہے، نہ معاذاللہ اس توہم باطل پر، خصوصا جبکہ وہ بیچارے صراحۃ کہہ رہے ہیں کہ حاشاللہ ہم عبادات غیر نہیں چاہتے صرف ایصال ثواب مقصود ہے۔

اوراگر انصاف کیجئے تو دربارہ عدم تبدیل ان کا وہ خیال بے اصل بھی نہیں، اگرچہ انھوں نے اس میں تشدد زیادہ سمجھ لیا ہو، جن چیزوں پر نیت قربت کرلی گئی، شرع مطہر میں بلا وجہ ان کا بدلنا پسند نہیں،لاسیما اذا کان النزول الی الناقص کما ہہناوکل ذلک ظاہرا جدا

(خصوصا جبکہ اعلی سے ادنی کی طرف تنزل ہو جیسا کہ یہاں ہے اوریہ تمام نہایت ظاہر ہے۔ ت)ولہذا اگر غنی قربانی کے لئے جانور خریدے اوراس معین کی نذر نہ ہو تو جانور متعین نہیں ہو جاتا اسے اختیار ہے کہ اس کے بدلے دوسرا جانور قربانی کرے پھر بھی بدلنا مکروہ ہے کہ جب اس پر قربت کی نیت کرلی تو بلا وجہ تبدیل نہ چاہئے۔

ہدایہ میں ہے:بالشراء للتضحیۃ لایمتنع البیع ۲؎۔

قربانی کے لئے خرید بیع کے لئے مانع نہیں۔ (ت)

(۲؎ الہدایۃ کتاب الاضحیۃ مطبع یوسفی لکھنؤ ۴/ ۴۴۳)

اسی میں ہے :ویکرہ ان یبدل بہا غیرہا ۱؎۔

اورا س قربانی کے جانور کو تبدیل کرنا مکروہ ہے۔ (ت) اسی طرح تبیین الحقائق وغیرہ میں ہے۔

(۱؎ الہدایۃ کتاب الاضحیۃ مطبع یوسفی لکھنؤ ۴/ ۴۴۹)

بالجملہ مسلمانوں پر بدگمانی حرام اور حتی الامکان اس کے قول وفعل کو وجہ صحیح پر حمل واجب، اور یہاں ارادہ قلب پر بے تصریح قائل حکم لگانے کی اصلا راہ نہیں، اور حکم بھی کیسا کفر وشرک کا، جس میں اعلی درجہ کی احتیاط فرض، یہاں تک کہ ضعیف سے ضعیف احتمال بچاؤ نکلتا ہو تو اسی پر اعتماد لازم،کما حقق کل ذلک الائمۃ المحققون فی تصانیفہم الجلیلۃ

(جیسا کہ ائمہ محققین نے اپنی تصانیف میں اس کی تحقیق فرمائی ہے۔ ت)اگر بالفرض بعض کو رد ل احمقوں پر بہ ثبوت شرعی ثابت بھی ہو کہ ان کا مقصود معاذاللہ عبادات غیر ہے تو حکم کفر صرف انھیں پر صحیح ہوگا ان کے سبب حکم عام لگادینا اورباقی لوگوں کی بھی یہی نیت سمجھ لینا محض باطل۔

قال اﷲ تعالی لا تزروازرۃ وزراخری ۳؎۔

(اللہ تعالی نے فرمایا) اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔ (ت)

(۲؎ القرآن الکریم ۶/ ۱۶۴)

پس حق یہ ہے کہ نہ مطلقا اس نام پکارنے پر حکم شرک صحیح ، نہ اس وجہ سے جانور کو مردار مان لینا درست، بلکہ حکم شرک کے لئے قائل کی نیت پوچھیں گے، اگر اقرار کرے کہ اس کی مرادعبادات غیر ہے تو بے شک مشرک کہیں گے ورنہ ہر گزنہیں، اور حکم حرمت صرف قول وفعل ونیت ذابح خاص وقت ذبح پر مدار رکھیں گے، اگر مالک خواہ غیر مالک کسی کلمہ گو نے معاذاللہ اسی نیت شرک کے ساتھ ذبح کیا تو بے شک حرام کہ وہ اس نیت سے مرتد ہوگیا اور مرتد کا ذبیحہ نہیں، اور اگر اللہ عزوجل کے لئے جان دی اور قصدا تکبیر نہ کی تو بیشک حلال، اگر چہ اس پر باعث ایصال ثواب یا اکرام اولیاء یا نفع دینا وغیرہا مقاصد ہوں، اگر چہ مالک غیر ذابح کی نیت معاذاللہ وہی عبادات غیر ہو، اگر چہ پیش از ذبح یا غیر ذابح نے وقت ذبح کسی کا نام پکارا ہو، مالک سے وہ نیت ناپاک ثابت ہونا بھی ذابح پر کچھ موثر نہیں، جب تک خود اس سے بھی اسی نیت پر جان دینا ثابت نہ ہو کہ جب اس سے وہ نیت ثابت نہیں، اور مسلمان اپنے رب عزوجل کا نام لے کر ذبح کررہاہے تو اس پر بدگمانی حرام و نارواہے، اوہام تراشیدہ پر مسلمان کو معاذاللہ مرتکب کفر سمجھنا حلال خدا کو حرام کہہ دینا نام الہی عزوجل جو وقت تکبیر لیا گیا باطل وبے اثر ٹھہرانا ہر گز وجہ صحت نہیں رکھتا،

اللہ عزوجل فرماتاہے:ومالکم ان لا تاکلوا مماذکر اسم اﷲ علیہ ۱؎۔

تمھیں کیا ہوا کہ نہ کھاؤ اس جانور سے جس کے ذبح میں اللہ کانام یاد کیا گیا۔

(۱؎ القرآن الکریم ۶/ ۱۱۹)

امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:انما کلفنا بالظاہر لابالباطن فاذا ذبحہ علی اسم اﷲ وجب ان یحل، ولا سبیل لنا الی الباطل ۲؎۔

یعنی ہمیں شرع مطہر نے ظاہر پر عمل کا حکم فرمایا ہے باطن کی تکلیف نہ دی، جب اس نے اللہ عزوجل کا نام پاک لے کر ذبح کیا جانور حلال ہوجانا واجب ہوا کہ دل کا ارادہ جان لینے کی طرف ہمیں کوئی راہ نہیں،

(۲؎ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) تحت آیۃ ۲/ ۱۷۳ المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر ۵/ ۲۳)

یہ چند نفیس وجلیل فائدے حفظ کے قابل ہیں کہ بہت ابنائے زمان ان میں سخت خطا کرتے ہیں،وباﷲ العصمۃ والتوفیق وبہ الوصول الی التحقیق (حفاظت وتوفیق اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور اسی کی مدد سے تحقیق تک رسائی ہے۔ ت)

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔

فتاویٰ رضویہ، ج: 20، ص:269 تا 272

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

غیرمسلم کے ساتھ اس کے گھر کھانہ کھانا کیسا ہے

أم معبد رضي الله عنها كى بکری سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دلچسپ معجزہ