تیجہ، ساتواں ، دسواں ،بیسواں، تیسواں ،اور چہلم برسی کے کھانے کے متعلق " اعلحضرت امام احمد رضا خان" کا فتویٰ

تیجہ، ساتواں ،  دسواں ،بیسواں، تیسواں ،اور چہلم برسی کے کھانے کے متعلق " اعلحضرت امام احمد رضا خان" کا فتویٰ

⚡سوال ⚡:- *مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے جو کھانا بناتے ہیں ، وہ کھانا غریب کے علاوہ مالدار لوگ بھی کھا سکتے ہیں یا نہیں* ؟

⚡جواب ⚡📣 :- *میت کے نام پر، میت والوں کی طرف سے ، عام اور خاص سب لوگوں کو دعوت دے کر کھلانا ، نا جائز اور بری بدعت ہے ، کیوںکہ شریعت نے دعوت خوشی میں رکھی ہے نہ کہ غم میں* |
("فتوی عالمگیری":- جلد 1 پیج 167.
"در مختار "+"ردالمحتار":-جلد نمبر 2،پیج 240.)
✒امام اہلسنت اعلحضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ":-
*مردے کا کھانا صرف فقراء یعنی جو صاحب نصاب نہ ہوں ، انکے لئے ہونا چاہئے ، عام دعوت کے طور پر جو کرتے ہیں یہ منع ہے ، غنی (صاحب نصاب) نہ کھائیں*|
("فتویٰ رضویہ" :- جلد 9 پیج 536 )
✒اور فرماتے ہیں ":- *میت کے یہاں جو لوگ جمع ہوتے ہیں ،اور انکی دعوت کی جاتی ہے ، یہ کھانا ہر طرح منع ہے*|
(" فتویٰ رضویہ" :- جلد 9 پیج 673
✒اور فرماتے ہیں" :- *میت کی دعوت برادری کے لئے منع ہے* |(فتوی رضویہ جلد 9 پیج 609 )

✒اور فرماتے ہیں ":-  *تیجے ، دسوںے ،بیسوںے ، چالیسوںے ، وغیرہ کا کھانا مسکینوں کو دیا جائے ، برادری کو باٹنا یا برادری کو اکٹھہ کرکے کھلانا بے مطلب ہے* |

(📖"فتوی رضویہ":- جلد 9 ، پیج 667)
✒" صدر الشریعہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں " :- *عام میت کا کھانا صرف فقراء (غیر صاحب نصاب ) کو کھلا ئیں ، اور برادری میں اگر کچھ لوگ جو صاحب نصاب نہ ہو ں انکو بھی کھلا سکتے ہیں ، اور اپنے رشتہ داروں میں اگر ایسے لوگ ہوں تو انکو کھلانا اورں سے بہتر ہے ، اور جو صاحب نصاب ہوں انکو نہ کھلائیں ، بلکہ ایسے لوگوں کو کھانا بھی نہیں چاہئے*| 
(📗"فتوی امجدیہ" :- جلد ایک ، پیج 337

✒حصرت مفتی شریف الحق اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ":- *کچھ جگہ یہ رواج ہے کہ میت کے کھانے کو برادری اپنا حق سمجھتی ہے ، اگر نہ کھلائیں تو عیب لگاتےاور طعنہ دیتے ہیں ، یہ ضرور بری بدعت ہے ، لیکن اگر میت کو ثواب پہںچانے کے لئے کھانا پکواکر غریب مسلمانوں کو کھلائیں ، تو اس میں ہرج نہیں ، یہ کھانا اگر عام مسلمانوں میں سے کسی کو ثواب پہںچانے کے لئے ہے ، تو مالداروں (صاحب نصاب لوگوں ) کو کھانا منع ہے  اور فقراء (غیر صاحب نصاب ) لوگوں کو جائز  ، اور اگر بزرگاں دین کو ثواب پہچانے کے لئے ہے تو امیر غریب سب کو کھانا جائز ہے* |
(" فتوی امجدیہ " :- جلد 1 پیج 337 اور
*اسلئے جس صورت میں دعوت ناجائز ہے ، وہ ناجائز ہی رہے گی ، چاہے میت کی دعوت کہی جائے یا صرف دعوت بول کر کھلا ئی جائے، اور منع ہونے کی بنیاد فاتحہ نہیں ہے ، کی فقراء کا کھانا الگ فاتحہ کرنے اور باقی لوگوں کا الگ بغیر فاتحہ کرنے سے ، کھرابی دور ہو جائے گی* |
*مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس غلط رواج کو ختم کریں ، جس چیز کا ناجائز ہو نا ثابت ہو جائے ، اس کے با وجود اگر اسکو کرے گا تو وہ گنہگار ہے*|
(" فتوی فیض الرسول" :- جلد 1 پیج 657 سے 662 تک کا خلاصہ )

✒" اعلحضرت فرماتے ہیں :- *تجربے کی بات ہے کہ ، جو لوگ میت کے تیجے دسوںے ،بیسوںے، چالیسوںے ، برسی وغیرہ کو کھانے کے طلبگار اور شوقین رہتے ہیں ، انکا دل مردہ ہو جاتا ہے ، اللہ کی یاد اور عبادت کےلئے انکے اندر وہ چستی نہیں رہ جاتی ، کیونکہ وہ اپنے پیٹ کے لقمہ کے لئے مسلمان کی موت کے انتظار میں رہتے ہیں ، اور کھانا کھاتے وقت اپنی موت سے بے خبر ہو کر کھانے کے مزے میں کھوئے رہتے ہیں*|
(فتوی رضویہ ":- جلد 9

🎍🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🎍

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

غیرمسلم کے ساتھ اس کے گھر کھانہ کھانا کیسا ہے

أم معبد رضي الله عنها كى بکری سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دلچسپ معجزہ